...

عید میلاد النبی ﷺ کا حکم ۔

شیخ ابن باز رحمہ الله سے سوال کیا گیا ”میلاد کی عیدوں کا منانے کا کیا حکم ہے؟ “

جواب : میلاد کی عیدوں کے منانے کی شریعت مطہرہ میں کوئی اصل نہیں، بلکہ یہ نبی کریم ﷺ کےاس قول کی روشنی میں بدعت ہے۔

مَنۡ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ھَذَا مَالَیسَ مِنہُ فَھُوَ رَدٌّ (بخاری حدیث نمبر۲۶۹۷ )

جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات ایجاد کرے جو اس میں سے نہ ہو تو وہ مردود ہے ۔

اور صحیح مسلم میں ہے

 من عمل عملاً لیس علیہ امرنا فھو رد (مسلم)

جو کوئی ایسا عمل کرے جو ہمارے حکم کے مطابق نہ ہو تو وہ مردود (عمل) ہے۔

اور یہ سب جانتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے اپنی حیاتِ طیبہ میں کبھی بھی اپنا یومِ میلاد نہیں منایا، نہ کبھی اس کا حکم دیا ، اور نہ ہی صحابہ کرام رضی الله عنہم کو اور نہ ہی خلفاء راشدین کو یہ سکھایا۔ حضرات صحابہ کرام میں سے کسی نے کبھی بھی نبی ﷺ کا یومِ میلاد نہیں منایا، حالانکہ انہیں آپ کی سنت کا سب سے زیادہ علم بھی تھا، اور انہیں آپ ﷺ کے ساتھ سب لوگوں سے زیادہ محبت بھی تھی، وہ آپ کی اتباع اور پیروی کے بھی شدید حریص تھے. لہذا اگر عید میلاد النبی منانے کا شریعت میں کوئی حکم ہوتا تو وہ یقینا اسے بڑھ چڑھ کر مناتے۔

اسی طرح ابتدائی فضیلت والی صدیوں میں علمائے کرام میں سے کسی نے بھی اسے نہ منایا اور نہ ہی منانے کا حکم دیا ، اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ عید میلاد النبی کا اس شریعت سے قطعا کوئی تعلق نہیں، جسے حضرت محمد ﷺ لے کر دنیا میں تشریف لائے تھے۔ ہم الله تعالی اور تمام مسلمانوں کو گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ اگر نبی نے عید میلاد النبی کو منایا ہوتا تو ہم بھی اسے ضرور ضرور مناتے، اور لوگوں کو اس کے منانے کی دعوت بھی دیتے کیونکہ بحمداللہ! ہم آپ کی سنت کے اتباع اور آپ کی امر و نہی کی تعظیم کے شدید حریص ہیں۔ ہم اللہ تعالی سے اپنے لیے اور تمام مسلمان بھائیوں کے لیے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں حق پر ثابت قدم رکھے اور ہر اس کام سے محفوظ رکھے جو شریعت مطہرہ کے خلاف ہو۔ آمین

(مترجم شدہ فتاویٰ اسلامیہ ص 166)

جمع و ترتیب : ابو محمد عنایت الله